جو بیچ میں آئنہ ہو پیارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

جو بیچ میں آئنہ ہو پیارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے
by شاد لکھنوی

جو بیچ میں آئنہ ہو پیارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے
تو پھر ہوں باہم دگر نظارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

جو کچھ گزرتی ہے دل پہ پیارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے
کہیں وہ کس سے عدو ہیں سارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

چلے وہ باد مراد ہمدم جو بحر غم سے نکالے باہم
خوشی کے بجرے لگیں کنارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

خوشی تھی خلوت نشیں تھے باہم مخل ہوا غیر آ کے جس دم
تو ہوش و عقل و خرد سدھارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

نصیب اگر پھر ہوئی وہ صحبت بہم جو گزری میان عشرت
تو کام بگڑے خدا سنوارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

خدا دکھائے جو وصل کی شب خوشی سے گل گل شگفتہ ہوں سب
جو داغ دل پر ہیں غم کے مارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

ملا ہے تم کو جو شہر خوبی تو ملک غم کے ہیں ہم بھی والی
ہوئے ہیں کشور دو اجارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

جو بات کرتے نہ غیر دیتے جھکا کے آنکھیں ہی دیکھ لیتے
کہ ہوتے باہم دگر اشارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

خبر نہ افشاں کی ہم جھلک سے نہ تم خبر درد کی چمک سے
کچھ ان دنوں میں برے ستارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

نکالو وصلت کی تم جو راہیں کروں میں رہ رہ کے گرم آہیں
جہاز دودی لگیں کنارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

خدا اٹھائے یہ پردۂ غم جو مل کے ہم تم ہوں شادؔ باہم
تو کیسی شادی ہو گھر میں پیارے ادھر ہمارے ادھر تمہارے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse