جو خاص بندے ہیں وہ بندۂ عوام نہیں

جو خاص بندے ہیں وہ بندۂ عوام نہیں
by خواجہ محمد وزیر

جو خاص بندے ہیں وہ بندۂ عوام نہیں
ہزار بار جو یوسف بکے غلام نہیں

بھلا ہو کیا دل زاہد میں سوز الفت حق
کبھی جلانے کے قابل چراغ خام نہیں

گلا ہے چشم سخن گو سے خامشی کا ہمیں
دہن کے ہونے نہ ہونے میں کچھ کلام نہیں

تو آفتاب ہے زلف سیہ نہیں تو نہ ہو
چراغ روز کو کچھ احتیاج شام نہیں

عزیز عاشق گمنام کا ہے دل اس کو
نگیں وہ ہاتھ میں رکھتا ہے جس میں نام نہیں

بس ایک ہاتھ میں دو ہو کے پڑھ دوگانہ عشق
جو بے نماز ہے وہ قابل سلام نہیں

یہ سر جھکانا یہ منہ پھیرنا ہے مانع دید
مری نماز میں سجدہ نہیں سلام نہیں

وہ مجھ پہ مرنے لگی جو ہے مرے درپئے قتل
الٰہی اس کے سوا اور انتقام نہیں

فراق یار میں دست سبو اڑاتے ہیں خاک
یہ گرد باد ہے گردش میں اپنا جام نہیں

نہ ہنس رلائے گا تجھ کو خمار بادۂ عیش
مے نشاط تو اس بزم میں مدام نہیں

پھنسے نہ قید تعلق میں جو کہ ہے آزاد
چمن میں طائر نکہت اسیر دام نہیں

وہ دل ہو چاک نہیں عشق کا نشاں جس میں
نگیں وہ ٹوٹے محبت کا جس میں نام نہیں

رہے گا ہجر کا دن کب کٹے اگر شب وصل
مدام روز قیامت کو بھی قیام نہیں

بنے جو بال کا پھندا تمہاری تیغ کا بال
تو مرغ جان کے لئے بہتر اس سے دام نہیں

مے دو آتشۂ کفر و دیں سے خلق ہے مست
مگر شراب یہ ہم مشربو حرام نہیں

پکارا اپنا گدا کہہ کے مجھ کو اے شہ حسن
فقیر ہوں ترے در کا وزیرؔ نام نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse