جو دل بر کی محبت دل سے بدلے

جو دل بر کی محبت دل سے بدلے
by قلق میرٹھی

جو دل بر کی محبت دل سے بدلے
تو لوں امید لا حاصل سے بدلے

محال عقل کوئی شے نہیں ہے
جو آسانی مری مشکل سے بدلے

جہاں ہے کور اور خورشید محجوب
کہاں تک شمع ہر محفل سے بدلے

تہی دست محبت تو بھی سمجھو
جو جم ساغر کو جام گل سے بدلے

ہر اک کو جان دینے کی خوشی ہو
اجل گر ناوک قاتل سے بدلے

اگر ہو چیں جبیں قاتل دم قتل
قیامت قامت قاتل سے بدلے

ابھی ہم تو عدو سے بھی بدل لیں
جو غم کو غم سے دل کو دل سے بدلے

کھلے احوال دل جب ناصحوں پر
تہہ دریا اگر ساحل سے بدلے

شبستاں چھوڑ کر لیلیٰ ہو مجنوں
مری آغوش گر محمل سے بدلے

نہ جنبش اک قدم ہو آسماں سے
مری منزل اگر منزل سے بدلے

بتوں کا جلوہ کعبے میں دکھا دیں
ذرا تقویٰ دل مائل سے بدلے

قلقؔ اس ظلم کا پھر کیا ٹھکانا
اگر مقتول لے قاتل سے بدلے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse