جو دل نہیں رکھتا کوئی مشکل نہیں رکھتا
جو دل نہیں رکھتا کوئی مشکل نہیں رکھتا
مشکل نہیں رکھتا کوئی جو دل نہیں رکھتا
کھینچے لیے جاتا ہے کہیں شوق شہادت
دم لینے کی تاب اب دل بسمل نہیں رکھتا
ہوں ریگ کے مانند شب و روز سفر میں
آوارہ وحشت کوئی منزل نہیں رکھتا
مجبور ہوں کیا زور چلے جوش جنوں سے
زنجیر کوئی پاؤں کے قابل نہیں رکھتا
کعبے سے ہو یا دیر سے منزل پہ پہنچ جاؤں
اک دھن ہے تمیز حق و باطل نہیں رکھتا
مے خانے کو دیکھے کوئی ان آنکھوں سے غافل
اک نور کا دریا ہے کہ ساحل نہیں رکھتا
کوثر بھی کھنچ آئے تو یہ نیت نہیں بھرتی
دریائے ہوس وہ ہے کہ ساحل نہیں رکھتا
آیا نہ کوئی خواب میں بھی ملک عدم سے
افسوس کہ اتنی بھی کشش دل نہیں رکھتا
لیلیٰ کو بھلا دیکھے گا کن آنکھوں سے مجنوں
جب طاقت نظارۂ محمل نہیں رکھتا
کیوں یاسؔ قفس میں بھی وہی زمزمہ سنجی
ایسا تو زمانے میں کوئی دل نہیں رکھتا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |