جو دیکھو مرے شعر تر کی طرف
جو دیکھو مرے شعر تر کی طرف
تو مائل نہ ہو پھر گہر کی طرف
کوئی داد دل آہ کس سے کرے
ہر اک ہے سو اس فتنہ گر کی طرف
محبت نے شاید کہ دی دل کو آگ
دھواں سا ہے کچھ اس نگر کی طرف
لگیں ہیں ہزاروں ہی آنکھیں ادھر
اک آشوب ہے اس کے گھر کی طرف
بہت رنگ ملتا ہے دیکھو کبھو
ہماری طرف سے سحر کی طرف
بہ خود کس کو اس تاب رخ نے رکھا
کرے کون شمس و قمر کی طرف
نہ سمجھا گیا ابر کیا دیکھ کر
ہوا تھا مری چشم تر کی طرف
ٹپکتا ہے پلکوں سے خوں متصل
نہیں دیکھتے ہم جگر کی طرف
مناسب نہیں حال عاشق سے صبر
رکھے ہے یہ دارو ضرر کی طرف
کسے منزل دل کش دہر میں
نہیں میل خاطر سفر کی طرف
رگ جاں کب آتی ہے آنکھوں میں میرؔ
گئے ہیں مزاج اس کمر کی طرف
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |