جو مجھے مرغوب ہو وہ سوگواری چاہئے

جو مجھے مرغوب ہو وہ سوگواری چاہئے
by رشید لکھنوی

جو مجھے مرغوب ہو وہ سوگواری چاہئے
میرے سویم میں تمہیں پوشاک بھاری چاہئے

تازہ ہو باغ تمنا آبیاری چاہئے
آج تو اے چشم تر کچھ اشک باری چاہئے

جب بہار آئے تو کب پرہیزگاری چاہئے
سال بھر میں چار دن تو بادہ خواری چاہئے

دل جگر سے جب میں کہتا ہوں نہیں آئے گا یار
کہتے ہیں کچھ دیر تو اور انتظاری چاہئے

ہوں حواس و ہوش اگر باقی تو کیا لطف جنوں
دل نہ قابو میں ہو وہ بے اختیاری چاہئے

راس آئے تم کو ملک عشق کی آب و ہوا
عاشقو ہر وقت شغل آہ و زاری چاہئے

وصل کی شب ہے وہ پہلو میں ہیں تو سونے نہ دے
ہاں مرے دل اب زیادہ بے قراری چاہئے

موت بیکار آتی ہے مرنا ہمارا ہے محال
آپ کی تلوار کا اک زخم کاری چاہئے

روتے روتے مر گئے ہیں جو فراق یار میں
ان کو بہر غسل میت آب جاری چاہئے

سیکھی ان سے دل ربائی آ گئی فصل شباب
آج کل دل کی طرف سے ہوشیاری چاہئے

سر نہ اٹھے تیری چوکھٹ سے نہ کوچے سے قدم
طوق بھاری چاہئے زنجیر بھاری چاہئے

ہو زیادہ روشنی اور دیر تک باقی رہے
میری شمع روح کو محفل تمہاری چاہئے

آپ کے لاؤ نعم نے طرفہ دکھلایا طلسم
نا امیدی کہتی ہے امیدواری چاہئے

تیرے چہرے کے مقابل ہو اگر تو اس طرح
آفتاب حشر کو آئینہ داری چاہئے

یہ تمہاری جا نہیں آنکھوں کے وا سے ہیں یہ در
دل میں دوں تم کو جگہ یہ پردہ داری چاہئے

بخش دیتا ہے رشیدؔ اللہ اتنی بات پر
کر کے عصیاں آدمی کو شرمساری چاہئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse