جو مر گئے تری چشم سیاہ کے مارے
جو مر گئے تری چشم سیاہ کے مارے
نہ حشر کو بھی اٹھیں گے نگاہ کے مارے
مثال برگ خزاں صرصر فراق سے آہ
پٹکتے پھرتے ہیں سر ہم تباہ کے مارے
عزیزو دل نہ دو یوسف کی کر کے چاہ کبھی
کہ جا کے چاہ میں گرتے ہیں چاہ کے مارے
الٰہی حشر میں آواز صور سن کیوں کر
اٹھوں گا آہ میں بار گناہ کے مارے
حذر کر آہ دل ناتواں سے اے ظالم
کہ کوہ ٹل گئے ہیں برگ کاہ کے مارے
نہ سمجھیو کہ فلک پر ستارے ہیں روشن
ہیں رخنہ دار مرے تیر آہ کے مارے
بسان نقش قدم تیرے در سے اہل وفا
اٹھاتے سر نہیں ہرگز تباہ کے مارے
اجڑ گئے خرد و صبر و ہوش و تاب و تواں
اسی کے ناز و ادا کی سپاہ کے مارے
جہان دل اے جہاں دارؔ ایک دن نہ بسا
جفائے شاہ تغافل شعار کے مارے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |