جو مہندی کا بٹنا ملا کیجئے گا
جو مہندی کا بٹنا ملا کیجئے گا
پسینے کو عطر حنا کیجئے گا
ستم کیجئے گا جفا کیجئے گا
یہی ہوگا اور آپ کیا کیجئے گا
پھڑک کر نکل جائے گا دم ہمارا
قفس سے جو ہم کو رہا کیجئے گا
جو کہتا ہوں اچھا نہیں ظلم کرنا
تو کہتے ہیں وہ آپ کیا کیجئے گا
قیامت میں دیدار کا کب یقیں ہے
یوں ہی لن ترانی سنا کیجئے گا
کہا حال دل تو وہ یہ کہہ کے اٹھے
میں جاتا ہوں بیٹھے بکا کیجئے گا
شہنشاہ کہتے ہیں ان کے گدا سے
ہمارے لیے بھی دعا کیجئے گا
گلوں کا وہی پیرہن ہوگا صاحب
عنایت جو اپنی قبا کیجئے گا
کنارہ بھلا تم سے اے بحر خوبی
ڈبونے ہی کو آشنا کیجئے گا
منجم نے ہاتھ ان کے دیکھے تو بولا
گلوں کی قبا کو قبا کیجئے گا
مری جان کے مدعی آپ ہوں گے
سماعت اگر مدعا کیجئے گا
بہت ناز پروردہ ہے دل ہمارا
ذرا لطف اس پر کیا کیجئے گا
نہ دیوانہ بنتے جو معلوم ہوتا
پری بن کے ہم سے اڑا کیجئے گا
بتو برق ہیں درد مندوں کی آہیں
خدا کے غضب سے ڈرا کیجئے گا
بہت فیض بخشی کا سنتے ہیں شہرا
ہماری بھی حاجت روا کیجئے گا
خدا کے لیے میرزا مہرؔ صاحب
بتوں پر کہاں تک مٹا کیجئے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |