جو میرے تنگنائے دل میں تجھ کو جلوہ گر دیکھا

جو میرے تنگنائے دل میں تجھ کو جلوہ گر دیکھا
by سیماب اکبرآبادی

جو میرے تنگنائے دل میں تجھ کو جلوہ گر دیکھا
مری نظروں نے حیرت سے مجھی کو عمر بھر دیکھا

تصور کی حدوں میں بھی سمانا جن کا مشکل تھا
نظر والوں نے ان جلووں کو تا حد نظر دیکھا

سب اپنے دل میں اک تیر نظر محسوس کرتے ہیں
مگر کوئی بتا سکتا نہیں اس نے کدھر دیکھا

تعین بر طرف مقصود مجھ کو سجدہ کرنا تھا
نہ ہم نے رہ گزر دیکھی نہ ہم نے سنگ در دیکھا

نظر آتا نہ تھا جو گرد افکار و حوادث میں
وہ ساحل آنکھ نے طوفان غم میں ڈوب کر دیکھا

تمہارے سنگ در کو سنگ در میں کس طرح سمجھوں
کہ جب سجدہ کیا سر کو جبین عرش پر دیکھا

عجب منزل تھی اے سیمابؔ اپنی منزل ہستی
نہ موقع تھا ٹھہرنے کا نہ یارائے سفر دیکھا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse