جو میرے دل میں سہو تری یاد سے ہوا

جو میرے دل میں سہو تری یاد سے ہوا
by ناطق لکھنوی

جو میرے دل میں سہو تری یاد سے ہوا
نام اس کا محو عالم ایجاد سے ہوا

برباد خاک دل ہے تو احسان حسن کیا
میں سر بلند عشق کی افتاد سے ہوا

ایسے بھی ہیں کہ جن کو رہائی کی فکر ہے
شرمندہ میں تو زحمت صیاد سے ہوا

ناقوس اور اذاں کی بنا عشق سے پڑی
فریاد کا چلن مری فریاد سے ہوا

عشق و ہوس نے مل کے بنائی ہے بزم حسن
یہ اتحاد مجمع اضداد سے ہوا

دنیائے بے ثبات کا قصہ تھا مختصر
طول اتنا میری قید کی میعاد سے ہوا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse