جو مے دل سے پئے کوئی تو پھر رخنے نہیں رہتے

جو مے دل سے پئے کوئی تو پھر رخنے نہیں رہتے
by مضطر خیرآبادی

جو مے دل سے پئے کوئی تو پھر رخنے نہیں رہتے
ذرا یہ صاف کر لی جائے پھر تنکے نہیں رہتے

ہمارا مے کدہ محفوظ ہے تاثیر موسم سے
یہاں شیشے بھرے جاڑوں میں بھی ٹھنڈے نہیں رہتے

شراب ناب کے پینے سے ہاں اتنا تو ہوتا ہے
پڑے رہتے ہیں جو آنکھوں پہ وہ پردے نہیں رہتے

قیام مے کدہ کے واسطے اقرار کیوں ساقی
پلائے گا تو رہ جائیں گے اور ویسے نہیں رہتے

لباس ظاہری پر مے سے بے شک داغ پڑتے ہیں
مگر پینے سے اندر قلب کے دھبے نہیں رہتے

نہیں دیتا جو مے اچھا نہ دے تیری خوشی ساقی
پیالے کچھ ہمیشہ طاق پر رکھے نہیں رہتے

چھپائے کس طرح زاہد سے راز مے کشی کوئی
یہ حضرت مے کشوں کا حال بے پوچھے نہیں رہتے

نمازوں سے تھکے زاہد تو مے خانہ میں آ جانا
یہ اٹھنے بیٹھنے کے اس جگہ جھگڑے نہیں رہتے

خدا کے دامن رحمت سے اپنا دامن عصیاں
وہ کیا ٹانکے گا جس کے آنکھ میں ڈورے نہیں رہتے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse