جو نقش ہے ہستی کا دھوکا نظر آتا ہے

جو نقش ہے ہستی کا دھوکا نظر آتا ہے
by اصغر گونڈوی
298084جو نقش ہے ہستی کا دھوکا نظر آتا ہےاصغر گونڈوی

جو نقش ہے ہستی کا دھوکا نظر آتا ہے
پردے پہ مصور ہی تنہا نظر آتا ہے

نیرنگ تماشا وہ جلوا نظر آتا ہے
آنکھوں سے اگر دیکھو پردہ نظر آتا ہے

لو شمع حقیقت کی اپنی ہی جگہ پر ہے
فانوس کی گردش سے کیا کیا نظر آتا ہے

اے پردہ نشیں ضد ہے کیا چشم تمنا کو
تو دفتر گل میں بھی رسوا نظر آتا ہے

نظارہ بھی اب گم ہے بے خود ہے تماشائی
اب کون کہے اس کو جلوا نظر آتا ہے

جو کچھ تھی یہاں رونق سب باد چمن سے تھی
اب کنج قفس مجھ کو سونا نظر آتا ہے

احساس میں پیدا ہے پھر رنگ گلستانی
پھر داغ کوئی دل میں تازہ نظر آتا ہے

تھی فرد عمل اصغرؔ کیا دست مشیت میں
اک ایک ورق اس کا سادا نظر آتا ہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.