جو پری بھی روبرو ہو تو پری کو میں نہ دیکھوں
جو پری بھی روبرو ہو تو پری کو میں نہ دیکھوں
مری آنکھیں بند کر دو کہ کسی کو میں نہ دیکھوں
دل گرم خون الفت مرے بر میں رکھ دیا ہے
سوئے گل تو ملتفت ہوں جو کلی کو میں نہ دیکھوں
مرا دل لگا ہے جس سے مرا جی گیا ہے جس پر
مری کیوں کہ زندگی ہو جو اسی کو میں نہ دیکھوں
مری تجھ سے زندگی ہے تو مرا جگر ہے جی ہے
کسے دیکھ کر جیوں پھر جو تجھی کو میں نہ دیکھوں
مری کیوں کہ ہو تسلی تو ہی مصحفیؔ بتا پھر
دل شب بھی اس صنم کی جو گلی کو میں نہ دیکھوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |