جو کچھ کیا سو ہم نے کیا اپنی چاہ سے
جو کچھ کیا سو ہم نے کیا اپنی چاہ سے
اب شکوہ کیجیے نہ کچھ اس رشک ماہ سے
عاشق کے روزگار کو اس نے سیہ کیا
کاکل سے خط سے زلف سے خالی سیاہ سے
تاب و توان و دین و دل و عقل و صبر و ہوش
وہ شوخ مجھ سے لے گیا سب اک نگاہ سے
کی چرخ کج روش نے یہ کیا کج ادائی خرچ
جو ہم کو آشنا کیا اس کج کلاہ سے
کثرت نجوم کی نہ فلک پر یہ سمجھیو
غربال ہو گیا ہے مرے تیر آہ سے
اس شوخ خود پسند سے پوچھے کوئی سہی
ثابت ہوا ہے قتل مرا کس گناہ سے
پیارے عبث ہوئے ہو جہاں دارؔ سے خفا
بے دل نہ ہو تم ایسے دلی خیر خواہ سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |