جو ہمیں چاہے اس کے چاکر ہیں
جو ہمیں چاہے اس کے چاکر ہیں
یار شاطر نہ بار خاطر ہیں
یاد ہے ہم سے پیار سے کہنا
تجھ سے ہم سب طرح سے حاضر ہیں
دل اٹھاویں گے تجھ سے تا مقدور
صبر کرنے پہ گو نہ قادر ہیں
یار و عاشق بہم موافق ہوں
اتفاق ایسے شاذ و نادر ہیں
وصل کی بن نہ آئی کچھ تدبیر
ہم سے کم عاشقوں میں بد بر ہیں
کچھ قصور اپنی بندگی میں نہیں
بندگی سے اگر مقصر ہیں
حسرتؔ عشق بتاں سے مانگ اماں
جتنے ہیں سب یہ سخت کافر ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |