Author:حسرتؔ عظیم آبادی
حسرتؔ عظیم آبادی (1727 - 1795) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- یار ابتدائے عشق سے بے زار ہی رہا
- یا الٰہی مرا دل دار سلامت باشد
- وفا کے ہیں خوان پر نوالے ز آب اول دوم بہ آتش
- اس زلف سے دل ہو کر آزاد بہت رویا
- سینہ تو ڈھونڈ لیا متصل اپنا ہم نے
- ساقی ہیں روز نو بہار یک دو سہ چار پنج و شش
- رکھا پا جہاں میں نگارا زمیں پر
- راہ رستے میں تو یوں رہتا ہے آ کر ہم سے مل
- قاصد خوش فال لایا اس کے آنے کی خبر
- پھری سی دیکھتا ہوں اس چمن کی کچھ ہوا بلبل
- نہ غرض ننگ سے رکھتے ہیں نہ کچھ نام سے کام
- نہ چھٹا ہاتھ سے یک لحظہ گریباں میرا
- میری اس پیاری جھب سے آنکھ لگی
- کیا کہوں تجھ سے مری جان میں شب کا احوال
- کرے عاشق پہ وہ بیداد جتنا اس کا جی چاہے
- کم تر یا بیشتر گئے ہم
- کب تلک پیوے گا تو تر دامنوں سے مل کے مل
- کب تلک ہم کو نہ آوے گا نظر دیکھیں تو
- جو ہمیں چاہے اس کے چاکر ہیں
- جس کا میسر نہ تھا بھر کے نظر دیکھنا
- جان کر کہتا ہے ہم سے اپنے جانے کی خبر
- عشق میں گل کے جو نالاں بلبل غم ناک ہے
- ان دونوں گھر کا خانہ خدا کون غیر ہے
- حسن کو اس کے خط کا داغ لگا
- ہم عشق سوا کم ہیں کسی نام سے واقف
- ہم آپ کو تو عشق میں برباد کریں گے
- ہر طرف ہے اس سے میرے دل کے لگ جانے میں دھوم
- ہر گھڑی مت روٹھ اس سے پھیر پل میں مل نہ جا
- ہے یاد تجھ سے میرا وہ شرح حال دینا
- ہے رشک وصل سے غم دل دار ہی بھلا
- گر عشق سے واقف مرے محبوب نہ ہوتا
- ایک دم خشک مرا دیدۂ تر ہے کہ نہیں
- دل نے پایا جو مرے مژدہ تری پاتی کا
- دیکھیں تجھے نہ آویں گے ہم
- دامن ہے میرا دشت کا دامان دوسرا
- چاہے سو ہمیں کر تو گنہ گار ہیں تیرے
- بے وفا گو ملے نہ تو مجھ کو
- عزیزو تم نہ کچھ اس کو کہو ہوا سو ہوا
- اب تجھ سے پھرا یہ دل ناکام ہمارا
- آتا ہوں جب اس گلی سے سو سو خواری کھینچ کر
- آشنا کب ہو ہے یہ ذکر دل شاد کے ساتھ
- آئے ہیں ہم جہاں میں غم لے کر
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |