جو ہوا ہے صورت باد مخالف تیز ہے

جو ہوا ہے صورت باد مخالف تیز ہے
by رشید لکھنوی

جو ہوا ہے صورت باد مخالف تیز ہے
دل کا میداں ہے کہ اک صحرائے آفت خیز ہے

میرے ساقی دم بہ دم کیوں کر بھرا آئے نہ دل
دور ہوں میں اور ساغر بزم میں لبریز ہے

دکھ اٹھانے کی بھی آخر ہوتی ہے کچھ انتہا
بلبل دل کا مرے نغمہ بھی دردانگیز ہے

آمد آمد ہے خزاں کی کیوں نہ روئے عندلیب
گل ابھی نو کار ہیں سبزہ ابھی نوخیز ہے

تیرے وحشی جاتے ہیں افتان و خیزاں سوئے دشت
ہو جنوں دیکھے سے ایسی چال وحشت خیز ہے

کیوں نہ روئیں سیکڑوں طوفان اٹھے چاہ میں
ہم نہ واقف تھے کہ بحر عشق طوفاں خیز ہے

آب خنجر تو ملا دے تو چھلک جائے ابھی
عمر کا ساغر یہاں اک عمر سے لبریز ہے

اس پہ مرتا ہوں مرے مرنے کی ہے جس کو خوشی
عارضہ وہ ہے کہ جس سے موت کو پرہیز ہے

تخم الفت کا زمین دل میں بونا کیا ضرور
لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو خود محبت خیز ہے

ہو جہاں معشوق واں عاشق بھی ہوتا ہے ضرور
یاں یوں ہی روز ازل سے حسن و عشق آمیز ہے

نزع میں بھی ماتم دل ہے تلاش یار ہے
پاؤں ہیں چالاک اب تک ہاتھ اب تک تیز ہے

کس تکلف سے نباہی میں نے الفت آپ کی
فخر کرتا ہوں کہ میرا عشق حسن آمیز ہے

کاٹ کے سر میرا تم نے ہاتھ میں لٹکا دیا
دیکھو یہ میری وفاداری کی دستاویز ہے

کر دیا ہے مست سارے خفتگان خاک کو
کیا ہوا شہر خموشاں کی نشاط انگیز ہے

ہے رشیدؔ اب تک گیاہ لکھنؤ مردم گیاہ
کیا زمیں ہے جو اجڑ جانے پہ مردم خیز ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse