جو ہے عرش پر وہی فرش پر کوئی خاص اس کا مکاں نہیں
جو ہے عرش پر وہی فرش پر کوئی خاص اس کا مکاں نہیں
وہ یہاں بھی ہے وہ وہاں بھی ہے وہ کہیں نہیں وہ کہاں نہیں
یہ نصیب تیرے شہید کا کہ کمال شوق تھا دید کا
جو گلا بھی ہے تو وہ تر نہیں جو چھری بھی ہر تو رواں نہیں
میں وہ سرو باغ وجود ہوں میں وہ گل ہوں شمع حیات کا
جسے فصل گل کی خوشی نہیں جسے رنج باد خزاں نہیں
جو اٹھے تو سینہ ابھار کر جو چلے تو ٹھوکریں مار کر
نئے آپ ہی تو جوان ہیں کوئی کیا جہاں میں جواں نہیں
کدھر اڑ گیا مرا قافلہ کہ زمین پھٹ کے سما گیا
نہ غبار اٹھا نہ جرس بجا کہیں نقش پا کا نشاں نہیں
یہ مے فرنگ کی کشتیاں بھی سفینہ ہائے نجات ہیں
کبھی اس کا بیڑا نہ پار ہو جو مرید پیر مغاں نہیں
اٹھو قدرؔ ان پہ نہ جان دو اجی جان ہے تو جہان ہے
کوئی کام ایسا بھی کرتا ہے ارے میاں نہیں ارے میاں نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |