جو ہے یاں آسائش رنج و محن میں مست ہے
جو ہے یاں آسائش رنج و محن میں مست ہے
کوچۂ جاناں میں ہم ہیں قیس بن میں مست ہے
تیرے کوچے میں ہے قاتل رقص گاہ عاشقاں
کوئی غلطاں سر بکف کوئی کفن میں مست ہے
میکدے میں بادہ کش بت خانے میں ہیں بت پرست
جو ہے عالم میں وہ اپنی انجمن میں مست ہے
نکہت زلف صنم سے یاں معطر ہے دماغ
کوئی مشک چیں کوئی مشک ختن میں مست ہے
ہے کوئی محو نماز اور خمکدہ میں کوئی مست
دل مرا عشق بتان دل شکن میں مست ہے
ہے مسلماں کو ہمیشہ آب زمزم کی تلاش
اور ہر اک برہمن گنگ و جمن میں مست ہے
عکس روئے شمع رو ہے میرے دل میں جا گزیں
دل مرا اس آتش لمعہ فگن میں مست ہے
ہے مرا ہر شعر تر بہرامؔ کیسا پر اثر
جس کو دیکھو مجلس اہل سخن میں مست ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |