جو یوں آپ بیرون در جائیں گے
جو یوں آپ بیرون در جائیں گے
خدا جانے کس کس کے گھر جائیں گے
شب ہجر میں ایک دن دیکھنا
اگر زندگی ہے تو مر جائیں گے
عبث گھر سے اپنے نکالے ہے تو
بھلا ہم تجھے چھوڑ کر جائیں گے
مسافر ہیں لیکن نہیں جانتے
کہاں سے ہم آئے کدھر جائیں گے
تمنا میں بوسہ کی کہتا ہے جی
بدن سے نکل بھی اگر جائیں گے
تو ہے ایک دم اور ہزاروں امید
لبوں پہ کوئی دم ٹھہر جائیں گے
بہ حرمت نبھی اب تلک جس طرح
حضور اتنے دن بھی گزر جائیں گے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |