جو یہ دل ہے تو کیا سرانجام ہوگا

جو یہ دل ہے تو کیا سرانجام ہوگا
by میر تقی میر

جو یہ دل ہے تو کیا سرانجام ہوگا
تا خاک بھی خاک آرام ہوگا

مرا جی تو آنکھوں میں آیا یہ سنتے
کہ دیدار بھی ایک دن عام ہوگا

نہ ہوگا وہ دیکھا جسے کبک تو نے
وہ اک باغ کا سرو اندام ہوگا

نہ نکلا کر اتنا بھی بے پردہ گھر سے
بہت اس میں ظالم تو بدنام ہوگا

ہزاروں کی یاں لگ گئیں چھت سے آنکھیں
تو اے ماہ کس شب لب بام ہوگا

وہ کچھ جانتا ہوگا زلفوں میں پھنسنا
جو کوئی اسیر تا دام ہوگا

جگر چاکی ناکامی دنیا ہے آخر
نہیں آئے جو میرؔ کچھ کام ہوگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse