جگر اور دل کو بچانا بھی ہے

جگر اور دل کو بچانا بھی ہے
by مجاز لکھنوی

جگر اور دل کو بچانا بھی ہے
نظر آپ ہی سے ملانا بھی ہے

محبت کا ہر بھید پانا بھی ہے
مگر اپنا دامن بچانا بھی ہے

جو دل تیرے غم کا نشانہ بھی ہے
قتیل جفائے زمانہ بھی ہے

یہ بجلی چمکتی ہے کیوں دم بدم
چمن میں کوئی آشیانہ بھی ہے

خرد کی اطاعت ضروری سہی
یہی تو جنوں کا زمانا بھی ہے

نہ دنیا نہ عقبیٰ کہاں جائیے
کہیں اہل دل کا ٹھکانا بھی ہے

مجھے آج ساحل پہ رونے بھی دو
کہ طوفان میں مسکرانا بھی ہے

زمانے سے آگے تو بڑھیے مجازؔ
زمانے کو آگے بڑھانا بھی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse