جگنو اور بچہ

جگنو اور بچہ
by سیماب اکبرآبادی
330987جگنو اور بچہسیماب اکبرآبادی

جگنو
ادھر آؤ اے میرے نادان بچے
کروں گا میں دو چار باتیں تمہیں سے
ہو مصروف کیوں کھیلنے میں تم ایسے
سنو تو سہی کچھ پڑھو گھر پہ جا کے
نہیں پیارے بچے یہ دن کھیلنے کے

بچہ
میں ابا کا جانی میں اماں کا پیارا
نہیں رنج میرا کسی کو گوارا
نہ جاؤں گا پڑھنے یہ ہے کیا اشارا
میں کھیلوں گا تیرا نہیں کچھ اجارا
چمکدار کیڑے مجھے کھیلنے دے

جگنو
یہ پر نور چہرہ یہ آنکھیں منور
یہ گورا بدن اور کپڑے معطر
لڑکپن کے دن ہیں مگر یوں نہ ہٹ کر
نصیحت سے میری ہوا کیوں مکدر
نہیں پیارے بچے یہ دن کھیلنے کے

بچہ
پڑی ہے ابھی عمر پڑھ لوں گا جگنو
کہ پڑھنے پہ ہر وقت ہے میرا قابو
میں کیوں جاؤں پڑھنے میں کھیلوں گا ہر سو
کہیں اور بے پر کی جا کر اڑا تو
چمکدار کیڑے مجھے کھیلنے دے

جگنو
نہیں پیارے بچے نہیں کھیل اچھا
کہ پڑھنے کا ہے اک یہی تو زمانہ
اگر ابتدا سے رہا شوق اس کا
تو آ جائے گا پھر بہت جلد پڑھنا
نہیں پیارے بچے یہ دن کھیلنے کے

بچہ
پکڑ لوں گا تجھ کو جو اب تو نے چھیڑا
تو آیا بڑا علم والا کہیں کا
میں کھیلوں گا کھیلوں گا کھیلوں گا ہر جا
مجھے کھیل سے روکتا ہے پرندہ
چمکدار کیڑے مجھے کھیلنے دے

جگنو
نہ جاؤں گا ہرگز میں اڑ کر یہاں سے
کرو گے نہ اقرار جب تک زباں سے
نصیحت کو آئے گا کوئی کہاں سے
فرشتے نہ اتریں گے اب آسماں سے
نہیں پیارے بچے یہ دن کھیلنے کے

بچہ
یہاں آ کے کن آفتوں میں پھنسا میں
ترے لیکچر میں ہوا مبتلا میں
کہیں اور ہی کھاؤں گا اب ہوا میں
تو جاتا نہیں تو نہ جا لے چلا میں
چمکدار کیڑے مجھے کھیلنے دے

جگنو
میں تیرے لئے گو اک آفت نئی ہوں
مگر واقعی رحمت اللہ کی ہوں
جہاں میں ترا رہنما ہر گھڑی ہوں
میں جگنو نہیں علم کی روشنی ہوں
نہیں پیارے بچے یہ دن کھیلنے کے
تجھے ایک دن ہے چمکنا زمیں پر
ہنسی مجھ کو آتی ہے تیری نہیں پر
نظر ہے مری تیرے روئے حسیں پر
میں چمکوں گا اک روز تیری جبیں پر
نہیں پیارے بچے یہ دن کھیلنے کے
ابھی سے اگر تو لکھے گا پڑھے گا
تو دنیا میں پروان جلدی چڑھے گا
یہ کب تک یوں ہی گیڑیاں تو گڑھے گا
بڑھائے گا ہمت تو آگے بڑھے گا
نہیں پیارے بچے یہ دن کھیلنے کے

بچہ
جو تو علم کی روشنی ہے تو آ جا
مرے دل میں میرے جگر میں سما جا
مجھے پڑھنے لکھنے کا شیدا بنا جا
اگر اور کچھ ہے تو ہٹ جا چلا جا
چمکدار کیڑے مجھے کھیلنے دے


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.