جھوٹ سچ آپ تو الزام دیئے جاتے ہیں
جھوٹ سچ آپ تو الزام دیئے جاتے ہیں
بات سنتے نہیں دشنام دیئے جاتے ہیں
ترچھی نظروں سے کئے اس نے بہت دل زخمی
تیر ٹیڑھے مگر کام دیئے جاتے ہیں
کہہ گیا یہ بھی کوئی روٹھ کے جانے والا
ہم تجھے موت کا پیغام دیئے جاتے ہیں
پاسبان جاگ اٹھیں وہ تو انہیں دے دینا
لکھ کے کاغذ پہ یہ اک نام دیئے جاتے ہیں
آپ کے لطف و عنایت کا یہی ہے بدلہ
غم لئے جاتے ہیں آرام دیئے جاتے ہیں
دل ہوا جان ہوئی ان کی بھلا کیا قیمت
ایسی چیزوں کے کہیں دام دیئے جاتے ہیں
تیر قاتل کو کلیجے سے لگا رکھا ہے
ہم تو دشمن کو بھی آرام دیئے جاتے ہیں
کام آ جائے گا دشمن کی محبت میں کبھی
احتیاطاً دل ناکام دیئے جاتے ہیں
اب تو کھل کھیلے وہ بیخودؔ سے خدا خیر کرے
اب تو خود بھر کے اسے جام دیئے جاتے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |