جہاں تجھ کو بٹھا کر پوجتے ہیں پوجنے والے
جہاں تجھ کو بٹھا کر پوجتے ہیں پوجنے والے
وہ مندر اور ہوتے ہیں شوالے اور ہوتے ہیں
دہان زخم سے کہتے ہیں جن کو مرحبا بسمل
وہ خنجر اور ہوتے ہیں وہ بھالے اور ہوتے ہیں
جنہیں محرومیٔ تاثیر ہی اصل تمنا ہے
وہ آہیں اور ہوتی ہیں وہ نالے اور ہوتے ہیں
جنہیں حاصل ہے تیرا قرب خوش قسمت سہی لیکن
تری حسرت لیے مر جانے والے اور ہوتے ہیں
جو ٹھوکر ہی نہیں کھاتے وہ سب کچھ ہیں مگر واعظ
وہ جن کو دست رحمت خود سنبھالے اور ہوتے ہیں
تلاش شمع سے پیدا ہے سوز ناتمام اخترؔ
خود اپنی آگ میں جل جانے والے اور ہوتے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |