جیتا رہوں کہ ہجر میں مر جاؤں کیا کروں

جیتا رہوں کہ ہجر میں مر جاؤں کیا کروں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

جیتا رہوں کہ ہجر میں مر جاؤں کیا کروں
تو ہی بتا مجھے میں کدھر جاؤں کیا کروں

ہے اضطراب دل سے نپٹ عرصہ مجھ پہ تنگ
آج اس تلک بہ دیدۂ تر جاؤں کیا کروں

حیران ہوں کہ کیونکے یہ قصہ چکے مرا
سر رکھ کے تیغ ہی پہ گزر جاؤں کیا کروں

بتلا دے تو ہی واشد دل کا مجھے علاج
گلشن میں اے نسیم سحر جاؤں کیا کروں

بیٹھا رہوں کہاں تلک اس در پہ مصحفیؔ
اب آئی شام ہونے کو گھر جاؤں کیا کروں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse