جینے کی ہے امید نہ مرنے کا یقیں ہے
جینے کی ہے امید نہ مرنے کا یقیں ہے
اب دل کا یہ عالم ہے نہ دنیا ہے نہ دیں ہے
گم ہیں رہ تسلیم میں طالب بھی طلب بھی
سجدہ ہی در یار ہے سجدہ ہی جبیں ہے
کچھ مظہر باطن ہوں تو کچھ محرم ظاہر
میری ہی وہ ہستی ہے کہ ہے اور نہیں ہے
ایذا کے سوا لذت ایذا بھی ملے گی
کیوں جلوہ گہ ہوش یہاں دل بھی کہیں ہے
مایوس سہی حسرتئ موت ہوں فانیؔ
کس منہ سے کہوں دل میں تمنا ہی نہیں ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |