جی جائے مگر نہ وہ پری جائے
جی جائے مگر نہ وہ پری جائے
یا رب نہ ہماری دل لگی جائے
دل ہجر میں جائے یا کہ جی جائے
جس کا جی چاہے وہ ابھی جائے
اس گل کا نہ وصل ہو نہ جی جائے
کیونکہ میرے دل کی بے کلی جائے
تم لعل لب اپنے گر دکھاؤ
پھر سوئے یمن نہ جوہری جائے
اس غنچہ دہن کی بو نہ لائے
دکھلائے نہ منہ صبا چلی جائے
سوغات کی طرح پیش مجنوں
بیڑی اور میری ہتھکڑی جائے
ثابت ہے جب پہاڑ وحشت
جب تک دامن ہمارا سی جائے
غیروں کو تو مے پلائے ساقی
میں مانگوں تو صاف سن کے پی جائے
ہمراہ ہو پرورش علی بھی
یاں سے جو کربلا سخیؔ جائے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |