جی رہے یا نہ رہے ہر قدم یار نہ چھوڑ
جی رہے یا نہ رہے ہر قدم یار نہ چھوڑ
اے پتنگے تو کبھی شمع کا انوار نہ چھوڑ
شمع تجھ کو بھی مناسب تو وہاں تک جل جا
سر سے تا پائے تلک رشتۂ زنار نہ چھوڑ
لب شیریں سے اگر ہو نہ ترا لب شیریں
کوہ کن تو بھی تو اب دامن کہسار نہ چھوڑ
لیلا ہاتھ آوے نہ آوے ملے جو ناقہ سوار
حال غم سے وہ کرے منع پر اظہار نہ چھوڑ
لفظ تو نے جو کہے ہیں وو ہی حق اے منصور
کلمۃ الحق کو مگر تا بہ دم دار نہ چھوڑ
اے زلیخا مہ کنعاں کو لے دے مال متاع
پیش بایع کے کوئی مشتری زنہار نہ چھوڑ
اس نصیحت کو مری مان بقول افریدیؔ
جی رہے یا نہ رہے پر قدم یار نہ چھوڑ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |