جی میں کیا کیا مری اماہا تھا
جی میں کیا کیا مری اماہا تھا
پر ہوا وہ جو حق کا چاہا تھا
نبھی جب تک کہ ہم نباہ سکے
آپ نے ہم کو کب نباہا تھا
لقے دو چار ساتھ جاتے تھے
کیسا کل رات ہی ہی ہاہا تھا
چکی راہا تھا کیا بلا یہ رقیب
چکی سا منہ تو اس کا راہا تھا
کوچے تیرے میں رات کو جو گئے
بھولے ہم واں جہاں دوراہا تھا
تم جھٹک گئے کچھ ان دنوں پیارے
ٹوک کس نے تمہیں سراہا تھا
تم پہ تھا جب کہ عالم تجرید
ان دنوں میں بھی بن بیاہا تھا
جس گلی بیچ جا نکلتے تھے
تم پر اور ہم پہ آہا آہا تھا
آ کے تجھ سے جو تھا ملا لڑ کر
پایا کیا اظفریؔ نے لاہا تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |