جی میں کیا کیا مری اماہا تھا

جی میں کیا کیا مری اماہا تھا
by مرزا اظفری
316444جی میں کیا کیا مری اماہا تھامرزا اظفری

جی میں کیا کیا مری اماہا تھا
پر ہوا وہ جو حق کا چاہا تھا

نبھی جب تک کہ ہم نباہ سکے
آپ نے ہم کو کب نباہا تھا

لقے دو چار ساتھ جاتے تھے
کیسا کل رات ہی ہی ہاہا تھا

چکی راہا تھا کیا بلا یہ رقیب
چکی سا منہ تو اس کا راہا تھا

کوچے تیرے میں رات کو جو گئے
بھولے ہم واں جہاں دوراہا تھا

تم جھٹک گئے کچھ ان دنوں پیارے
ٹوک کس نے تمہیں سراہا تھا

تم پہ تھا جب کہ عالم تجرید
ان دنوں میں بھی بن بیاہا تھا

جس گلی بیچ جا نکلتے تھے
تم پر اور ہم پہ آہا آہا تھا

آ کے تجھ سے جو تھا ملا لڑ کر
پایا کیا اظفریؔ نے لاہا تھا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.