جی ڈھونڈھتا ہے گھر کوئی دونوں جہاں سے دور
جی ڈھونڈھتا ہے گھر کوئی دونوں جہاں سے دور
اس آپ کی زمیں سے الگ آسماں سے دور
شاید میں در خور نگہ گرم بھی نہیں
بجلی تڑپ رہی ہے مرے آشیاں سے دور
آنکھیں چرا کے آپ نے افسانہ کر دیا
جو حال تھا زباں سے قریب اور بیاں سے دور
تا عرض شوق میں نہ رہے بندگی کی لاگ
اک سجدہ چاہتا ہوں ترے آستاں سے دور
ہے منع راہ عشق میں دیر و حرم کا ہوش
یعنی کہاں سے پاس ہے منزل کہاں سے دور
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |