حال دل اے بتو خدا جانے
حال دل اے بتو خدا جانے
سچ ہے سچ اس کو غیر کیا جانے
لطف اشعار پوچھ شاعر سے
بے وفائی وہ بے وفا جانے
پھوٹ کر محفلوں میں روتے ہو
دل کا احوال کوئی کیا جانے
سخت کوئی غزل میں پاتا ہوں
نازکی میرا دل ربا جانے
لاکھ میں فیصلہ چکاتے ہو
مدعی کیوں نہ مدعا جانے
مرض عشق میں اثر ہوگا
میرا ہر شعر وہ دوا جانے
آج بے ہوش ہو گیا اخترؔ
کیا ہوا کیا ہوا خدا جانے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |