حال دل بے قرار ہے اور

حال دل بے قرار ہے اور
by غلام علی ہمدانی مصحفی

حال دل بے قرار ہے اور
شاید کہ خیال یار ہے اور

اے دیدہ نہ رو کہ تجھ پر اک شب
رنج شب انتظار ہے اور

جاگا ہے کہیں مگر تو دیشب
آنکھوں میں تری خمار ہے اور

فرہاد نے دیکھتے ہی گلگوں
جانا تھا کہ یہ سوار ہے اور

کوچے میں ترے مری نگہ کا
ہر گوشہ امیدوار ہے اور

ہے آخر عمر اس چمن میں
دو چار ہی دن بہار ہے اور

ناوک کا ترے شکار گہ میں
ہر گوشے نیا شکار ہے اور

وہ ہم سے کرے ہے کل کا وعدہ
اوروں سے وہاں قرار ہے اور

کیا لالے سے نسبت اس کو سچ ہے
داغ دل داغ دار ہے اور

اوروں سا نہ جان مجھ کو پیارے
یہ عاشق جاں نثار ہے اور

اے مصحفیؔ اس میں چپ ہی رہ تو
سنتا ہے یہ روزگار ہے اور

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse