حال دل میں سنا نہیں سکتا
حال دل میں سنا نہیں سکتا
لفظ معنیٰ کو پا نہیں سکتا
عشق نازک مزاج ہے بے حد
عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا
ہوش عارف کی ہے یہی پہچان
کہ خودی میں سما نہیں سکتا
پونچھ سکتا ہے ہم نشیں آنسو
داغ دل کو مٹا نہیں سکتا
مجھ کو حیرت ہے اس کی قدرت پر
الم اس کو گھٹا نہیں سکتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |