حجاب دور تمہارا شباب کر دے گا
حجاب دور تمہارا شباب کر دے گا
یہ وہ نشہ ہے تمہیں بے حجاب کر دے گا
مرا خیال مجھے کامیاب کر دے گا
خدا اسی کو زلیخا کا خواب کر دے گا
مری دعا کو خدا مستجاب کر دے گا
ترا غرور مجھے کامیاب کر دے گا
یہ داغ کھائے ہیں جس کے فراق میں ہم نے
وہ اک نظر میں انہیں آفتاب کر دے گا
کیا ہے جس کے لڑکپن نے دل مرا ٹکڑے
کلیجہ خون اب اس کا شباب کر دے گا
سنی نہیں یہ مثل گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے
تجھے تو دل کی خبر اضطراب کر دے گا
نہ دیکھنا کبھی آئینہ بھول کر دیکھو
تمہارے حسن کا پیدا جواب کر دے گا
کسی کے ہجر میں اس درد سے دعا مانگی
ندائیں آئیں خدا کامیاب کر دے گا
غم فراق میں گریہ کو شغل سمجھا تھا
خبر نہ تھی مری مٹی خراب کر دے گا
کسے خبر تھی ترے ظلم کے لیے اللہ
مجھی کو روز ازل انتخاب کر دے گا
اٹھا نہ حشر کے فتنہ کو چال سے ناداں
ترے شہید کا بے لطف خواب کر دے گا
وہ گالیاں ہمیں دیں اور ہم دعائیں دیں
خجل انہیں یہ ہمارا جواب کر دے گا
جواب صاف نہ دے مجھ کو یہ وہ آفت ہے
مرے سکون کو بھی اضطراب کر دے گا
کہیں چھپائے سے چھپتا ہے لعل گدڑی میں
فروغ حسن تجھے بے نقاب کر دے گا
تری نگاہ سے بڑھ کر ہے چرخ کی گردش
مجھے تباہ یہ خانہ خراب کر دے گا
ڈبوئے گی مجھے یہ چشم تر محبت میں
خراب کام مرا اضطراب کر دے گا
رقیب نام نہ لے عشق کا جتا دینا
یہ شعلہ وہ ہے جلا کر کباب کر دے گا
وفا تو خاک کرے گا مرا عدو تم سے
وفا کے نام کی مٹی خراب کر دے گا
عجیب شخص ہے پیر مغاں سے مل زاہد
نشے میں چور تجھے بے شراب کر دے گا
بڑوں کی بات بڑی ہے ہمیں نہیں باور
جو آسماں سے نہ ہوگا حباب کر دے گا
بھلائی اپنی ہے سب کی بھلائی میں بیخودؔ
کبھی ہمیں بھی خدا کامیاب کر دے گا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |