حریم ناز کہاں اور سر نیاز کہاں
حریم ناز کہاں اور سر نیاز کہاں
کہاں کا سجدہ کسے ہوش ہے نماز کہاں
مجھے خبر ہی نہیں ہے حریم ناز کہاں
نیاز مند کہاں اور بے نیاز کہاں
پڑی ہے کیا اسے حسرت زدوں میں آنے کی
یہ میری بزم کہاں اور وہ محو ناز کہاں
یہ مانا حسن حقیقت عیاں مجاز میں ہے
مگر وہ جلوہ ہے اے چشم امتیاز کہاں
علاج کس کا کرے گا یہ پوچھتا کیا ہے
بتائیں کیا تجھے ہے درد چارہ ساز کہاں
کبھی تو ملتی تھی ہجر و وصال میں لذت
مگر بجھی ہوئی دل میں وہ سوز و ساز کہاں
دعائیں مانگتا ہے شیخ کیوں معاذ اللہ
خدا کا نام لے توبہ کا در ہے باز کہاں
بڑے مزے سے گزرتی ہے بادہ خواروں کی
بجز شراب خیال شب دراز کہاں
ملا وہ بے خودیٔ شوق میں مزا اے شوقؔ
جنون و عشق میں باقی ہے امتیاز کہاں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |