حسن جب مقتل کی جانب تیغ براں لے چلا (II)
حسن جب مقتل کی جانب تیغ براں لے چلا
عشق اپنے مجرموں کو پا بجولاں لے چلا
خون ناحق کی حیا بولی ذرا منہ ڈھانک لو
ناز جب ان کو سر خاک شہیداں لے چلا
خاک عاشق روکنے کو دور تک لپٹی گئی
جب سمند ناز کو وہ گرم جولاں لے چلا
جب چلی مقتل سے قاتل کی سواری رات کو
آگے آگے مشعلیں خون شہیداں لے چلا
آرزوئے دید جاناں بزم میں لائی مجھے
بزم سے میں آرزوئے دید جاناں لے چلا
ڈھونڈتی تھی ہر طرف کس کو نگاہ واپسیں
آس کس کے دید کی بیمار ہجراں لے چلا
ناز آزادی حسنؔ وجہ اسیری ہو گیا
مو کشاں دل کو خیال زلف پیماں لے چلا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |