حسن عالم سوز نامحدود ہونا چاہئے
حسن عالم سوز نامحدود ہونا چاہئے
ہر تجلی آفتاب آلود ہونا چاہئے
حسن نیت ہے دلیل حسن انجام عمل
سعی میں بھی جلوۂ مقصود ہونا چاہئے
ایک ہی جلوہ ہے جب ہنگامہ آرائے شہود
پھر وہی شاہد وہی مشہود ہونا چاہئے
حسن عالم سوز کا فیض تجلی عام ہے
ایک اک ذرہ یہاں مسجود ہونا چاہئے
شانہ و آئینہ کیا اے زلف مشکین ایاز
تیری زینت کو دل محمود ہونا چاہئے
بے نیازی اب خطا کاروں کی ہمت بڑھ گئی
باب توبہ کچھ دنوں مسدود ہونا چاہئے
کاوش مژگان کا پیہم تقاضا ہے عزیزؔ
ہر نفس کو تیرے خون آلود ہونا چاہئے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |