حسن کی وہ صورتیں خواب پریشاں ہو گئیں

حسن کی وہ صورتیں خواب پریشاں ہو گئیں
by ثاقب لکھنوی

حسن کی وہ صورتیں خواب پریشاں ہو گئیں
پردۂ دل میں لگا کر آگ پنہاں ہو گئیں

مٹ کے بھی آئینۂ رخسار خوباں ہو گئیں
خون اہل عشق کی بوندیں گلستاں ہو گئیں

چھپ گئیں آنکھوں سے ذروں میں نمایاں ہو گئیں
بستیاں اجڑی ہوئی مل کر بیاباں ہو گئیں

دیکھتا کون اور بجھاتا کون اس دل کی لگی
ہڈیاں جل جل کے شمع زیر داماں ہو گئیں

زندگی میں کیا مجھے ملتی بلاؤں سے نجات
جو دعائیں کیں وہ سب تیری نگہباں ہو گئیں

اس ہوائے دہر میں جمعیت خاطر کہاں
دل کو جانے دو یہ زلفیں کیوں پریشاں ہو گئیں

ضعف باقی ہے کوئی جس کا نہیں پرسان حال
قوتیں سب نذر عشق فتنہ ساماں ہو گئیں

لوٹ لی گردوں نے آخر دل کی ساری کائنات
کچھ تمنائیں تھیں وہ بھی وقف نسیاں ہو گئیں

دوست‌ دار گل ہوں میں کس نے قفس سے کہہ دیا
مجھ کو پا کر تیلیاں خار مغیلاں ہو گئیں

کم نہ سمجھو دہر میں سرمایۂ ارباب غم
چار بوندیں آنسوؤں کی بڑھ کے طوفاں ہو گئیں

آرزوئے عالم فانی تھا آدم کا وجود
خواہشیں تھیں جو بہم گھل مل کے انساں ہو گئیں

خانماں بربادیوں کا مجھ پہ احساں ہے کہ میں
ان زمینوں میں نہیں جو بس کے ویراں ہو گئیں

میری آنکھیں شور تھا جن کی وفا کا ہر طرف
زخم دل میں پڑتے ہی دونوں نمکداں ہو گئیں

عقدہ ہائے غم سے وابستہ ہے اپنی زندگی
ہم کہاں یہ مشکلیں جس وقت آساں ہو گئیں

میں نثار دست قاتل مر کے زندہ ہو گیا
خنجر و شمشیر کی دھاریں رگ جاں ہو گئیں

اک سراب دشت تھیں فصلیں شباب حسن کی
دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں سے پنہاں ہو گئیں

کیا وفاداروں کے جی ڈوبے ہیں جوش عشق میں
کشتیاں دل کی ہزاروں نذر طوفاں طوفاں گئیں

مجمع احباب کی روداد ثاقبؔ کیا کہوں
اب وہ اگلی صحبتیں خواب پریشاں ہو گئیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse