حسن کی وہ صورتیں خواب پریشاں ہو گئیں

حسن کی وہ صورتیں خواب پریشاں ہو گئیں
by ثاقب لکھنوی
299502حسن کی وہ صورتیں خواب پریشاں ہو گئیںثاقب لکھنوی

حسن کی وہ صورتیں خواب پریشاں ہو گئیں
پردۂ دل میں لگا کر آگ پنہاں ہو گئیں

مٹ کے بھی آئینۂ رخسار خوباں ہو گئیں
خون اہل عشق کی بوندیں گلستاں ہو گئیں

چھپ گئیں آنکھوں سے ذروں میں نمایاں ہو گئیں
بستیاں اجڑی ہوئی مل کر بیاباں ہو گئیں

دیکھتا کون اور بجھاتا کون اس دل کی لگی
ہڈیاں جل جل کے شمع زیر داماں ہو گئیں

زندگی میں کیا مجھے ملتی بلاؤں سے نجات
جو دعائیں کیں وہ سب تیری نگہباں ہو گئیں

اس ہوائے دہر میں جمعیت خاطر کہاں
دل کو جانے دو یہ زلفیں کیوں پریشاں ہو گئیں

ضعف باقی ہے کوئی جس کا نہیں پرسان حال
قوتیں سب نذر عشق فتنہ ساماں ہو گئیں

لوٹ لی گردوں نے آخر دل کی ساری کائنات
کچھ تمنائیں تھیں وہ بھی وقف نسیاں ہو گئیں

دوست‌ دار گل ہوں میں کس نے قفس سے کہہ دیا
مجھ کو پا کر تیلیاں خار مغیلاں ہو گئیں

کم نہ سمجھو دہر میں سرمایۂ ارباب غم
چار بوندیں آنسوؤں کی بڑھ کے طوفاں ہو گئیں

آرزوئے عالم فانی تھا آدم کا وجود
خواہشیں تھیں جو بہم گھل مل کے انساں ہو گئیں

خانماں بربادیوں کا مجھ پہ احساں ہے کہ میں
ان زمینوں میں نہیں جو بس کے ویراں ہو گئیں

میری آنکھیں شور تھا جن کی وفا کا ہر طرف
زخم دل میں پڑتے ہی دونوں نمکداں ہو گئیں

عقدہ ہائے غم سے وابستہ ہے اپنی زندگی
ہم کہاں یہ مشکلیں جس وقت آساں ہو گئیں

میں نثار دست قاتل مر کے زندہ ہو گیا
خنجر و شمشیر کی دھاریں رگ جاں ہو گئیں

اک سراب دشت تھیں فصلیں شباب حسن کی
دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں سے پنہاں ہو گئیں

کیا وفاداروں کے جی ڈوبے ہیں جوش عشق میں
کشتیاں دل کی ہزاروں نذر طوفاں طوفاں گئیں

مجمع احباب کی روداد ثاقبؔ کیا کہوں
اب وہ اگلی صحبتیں خواب پریشاں ہو گئیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.