حسینوں کے گلے سے لگتی ہے زنجیر سونے کی

حسینوں کے گلے سے لگتی ہے زنجیر سونے کی
by اکبر الہ آبادی

حسینوں کے گلے سے لگتی ہے زنجیر سونے کی
نظر آتی ہے کیا چمکی ہوئی تقدیر سونے کی

نہ دل آتا ہے قابو میں نہ نیند آتی ہے آنکھوں میں
شب فرقت میں کیوں کر بن پڑے تدبیر سونے کی

یہاں بیداریوں سے خون دل آنکھوں میں آتا ہے
گلابی کرتی ہے آنکھوں کو واں تاثیر سونے کی

بہت بے چین ہوں نیند آ رہی ہے رات جاتی ہے
خدا کے واسطے جلد اب کرو تدبیر سونے کی

یہ زردہ چیز ہے جو ہر جگہ ہے باعث شوکت
سنی ہے عالم بالا میں بھی تعمیر سونے کی

ضرورت کیا ہے رکنے کی مرے دل سے نکلتا رہ
ہوس مجھ کو نہیں اے نالۂ شب گیر سونے کی

چھپر کھٹ یاں جو سونے کی بنائی اس سے کیا حاصل
کرو اے غافلو کچھ قبر میں تدبیر سونے کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse