حسین ابن علی عالی نسب تھا

حسین ابن علی عالی نسب تھا
by میر تقی میر
313522حسین ابن علی عالی نسب تھامیر تقی میر

حسین ابن علی عالی نسب تھا
سزاے عزت و باب ادب تھا
جفا و جور کا شائستہ کب تھا
سلوک اسلامیوں سے یہ عجب تھا
کہ اس مہمان کی عزت نہ کیجے
ضیافت یک طرف پانی نہ دیجے

کسو کافر سے ایسا ہو نہ کردار
ہوا اسلامیوں سے جو بہ اصرار
کجی رفتار کی تلخی گفتار
تس اوپر کھینچ کر ہر اک نے تلوار
بہت بے ڈول اس پر آزمائی
علی کے منھ سے کچھ بھی شرم آئی

محمدؐ جس کی سب امت کہاویں
اسی کی آل لوہو میں ڈباویں
علی سن کر جسے سب سر جھکاویں
اسی کے گھر کو بن پانی بہاویں
زہے اسلام نادر لوگ خوش دور
عجب آئیں عجب ایماں عجب طور

اسے ماریں جسے دیں کی امامت
نہ ہووے پھر کسو کو کچھ ندامت
کریں برپا ستم سے اک قیامت
علاوہ اس پہ تشنیع و ملامت
حیا مطلق نہ غارت سے کسو کو
نہ بہرہ کچھ مروت سے کسو کو

اسے بیکس جو پایا مار ڈالا
رکھا میداں میں سر کو نیزہ بالا
پسر کو کانپتا گھر سے نکالا
بٹھائیں عورتیں رستے پہ لا لا
نہ کچھ کی دل دہی زین العبا کی
نہ کچھ روے محمدؐ سے حیا کی

علی کے تیں موا جانا سبھوں نے
محمدؐ کو نہ کچھ مانا سبھوں نے
برا شبیر کا ٹھانا سبھوں نے
کیا اس گھر کو ویرانہ سبھوں نے
رہا تنکا سا عابد کشمکش میں
حرم کے لوگ بے حالی سے غش میں

علی اکبر کہ تھا شکل محمدؐ
طرف اس ایک سے ہوتے تھے صد صد
اٹھائے ان نے جس دم زخم بے حد
لگا منھ کر نجف کو کہنے کاے جد
ستم ہے شور ہے جور و جفا ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا یہ کیا ہے

پڑی تھی دھوپ میں وہ لاش مظلوم
کسو کا دل تنک ہوتا نہ تھا موم
اسیری اور غارت کی مچی دھوم
تردد شہ کے لے جانے کا معلوم
رہا تھا عابدیں سو زار و بیمار
نہ جس کی کچھ دوا نے جس کا تیمار

زناں مویہ کناں سب خاک بر سر
کہیں تھیں رو مدینے کی طرف کر
کہ منصف ہو ٹک اے ختم پیمبرؐ
مصیبت کس قدر ہے آل اوپر
کہیں کس سے کوئی حاکم نہیں ہے
نہ تو ہے نے امیرالمومنیں ہے

ریاست کے لیے شبیر مارا
بھلا یوں اس کی تھی تقدیر مارا
سبھوں کو کیوں ہے بے تقصیر مارا
علی اصغر کے پھر کیوں تیر مارا
چھنائیں عورتوں کی کیوں ردائیں
روا کاہے کو رکھیں یہ جفائیں

چلا سر کٹ کے اس جان جہاں کا
گرا ہے خاک پر خوں ہر جواں کا
ہوا ستھراؤ یوں خرد و کلاں کا
مقرر لوٹنا ہے خانماں کا
کسو ملت میں ایسا بھی ہوا ہے
نیا وارث ہمارا ہی موا ہے

سکینہ کا گنہ کیا ہے بتاویں
پدر مردہ کو کس خاطر کڑھاویں
کہاں فریاد لے کر آہ جاویں
کسے یہ ماجرا سارا سناویں
جفا ہر لحظہ ہم سب پر نئی ہے
حیا اک رسم تھی سو اٹھ گئی ہے

حسن تو تھا خلیفہ جس کو مارا
گنہ قاسم کا کیا جو اس کو مارا
کہوں میں کب تلک کس کس کو مارا
ستم سے جور سے جس تس کو مارا
رہا وارث نہ غیر از عابدیں کے
پڑے ہیں خاک میں ارکان دیں کے

سو ٹپکے ہے لہو اس کے سخن سے
بندھے ہیں ہاتھ دونوں اک رسن سے
ہوا ہے آپ اسیر آکر وطن سے
پدر محروم ہے اب تک کفن سے
کہاں مہلت کہ شہ کے تیں اٹھاویں
نہیں فرصت کہ ٹک رو کر بھی جاویں

جلے خیمے لٹا گھر بار سارا
ہوا کنبہ سبھی بندی ہمارا
جوان و پیر سب کو تشنہ مارا
اگرچہ یہ تھا دریا کا کنارہ
پہ قطرہ آب کا در و گہر تھا
کہ لب خشکی سے ہر اک چشم تر تھا

کرے عابد کہاں تک غم گساری
جسے بیماری و تن کی نزاری
کھنچی ہے دور تک اپنی یہ خواری
اٹھانا پاؤں کا اس پر ہے بھاری
ہو ایسے حال میں کیونکر دلاسا
کرے کس کس کی دلداری وہ پاس آ

کہے زینب تھی زہرا سے کہ مادر
کرے گا کون اب ہم سوں کا آدر
پڑا ہے خاک میں بے سر برادر
لیے جاتے ہیں چھینے سر کی چادر
کہاں لے جاؤں بھائی کو اٹھا کر
اڑاؤں خاک کس کے آگے جا کر

ہمیں بازار میں لاکر بٹھایا
کیا پامال ایسا سر اٹھایا
تسلی کو بھی کوئی ٹک نہ آیا
کفن جی سے گیوں نے بھی نہ پایا
ستم پر ہے ستم یہ جور پر جور
زمانہ ہوگیا پل مارتے اور

سکینہ جب کرے ہے باپ کو یاد
قیامت ایک ہو جاتی ہے بنیاد
اٹھے ہے ہم اسیروں میں جو فریاد
تو یہ کرتے ہیں ظلم ایک اور ایجاد
تقید رہروی کا سخت ہوئے
خشن سن سن کے ہر بدبخت ہوئے

نہیں آتا میسر لاش اٹھانا
کہ ہے درپیش یاں سے جلد جانا
کرے ہے عابدیں گر کچھ بہانہ
اٹھاتے ہیں گے اس پر تازیانہ
کہاں مقدور یہ اس ناتواں کا
کہ ہووے پیشرو اس کارواں کا

نظر میں باپ کا سر ہے سناں پر
پڑے ہے آنکھ لوٹے کارواں پر
بنی ہے آن کر ہر گام جاں پر
مصائب ہیں غرض اس ناتواں پر
ابھی میداں میں دس جاگہ گھرا ہے
چلا جاتا نہیں پر رہگرا ہے

جو رکتا ہے بہت تو رو اٹھے ہے
جو گرتا ہے تو طاقت کھو اٹھے ہے
کہے ہے یوں تو شور اک ہو اٹھے ہے
کہ دیکھوں باپ کب تک سو اٹھے ہے
سر رہ قافلہ ہے کوئی بولو
کہ دو رخصت اسے ٹک آنکھ کھولو

ہوئے سب شام کو آخر روانہ
کہ جن کو ٹھور تھی نے کچھ ٹھکانا
بہت بیدردیوں پر تھا زمانہ
کچھ آگے شرح و بسط اچھا نہ جانا
قلم کو میرؔ میں نے توڑ ڈالا
سر اپنا پتھروں سے پھوڑ ڈالا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.