حشر پر وعدۂ دیدار ہے کس کا تیرا
حشر پر وعدۂ دیدار ہے کس کا تیرا
لاکھ انکار اک اقرار ہے کس کا تیرا
نہ دوا سے اسے مطلب نہ شفا سے سروکار
ایسے آرام میں بیمار ہے کس کا تیرا
لاکھ پردے میں نہاں شکل ہے کس کی تیری
جلوہ ہر شے سے نمودار ہے کس کا تیرا
اور پامال ستم کون ہے تو ہے بیخودؔ
اس ستم گر سے سروکار ہے کس کا تیرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |