حلقے نہیں ہیں زلف کے حلقے ہیں جال کے

حلقے نہیں ہیں زلف کے حلقے ہیں جال کے
by اکبر الہ آبادی

حلقے نہیں ہیں زلف کے حلقے ہیں جال کے
ہاں اے نگاہ شوق ذرا دیکھ بھال کے

پہنچے ہیں تا کمر جو ترے گیسوئے رسا
معنی یہ ہیں کمر بھی برابر ہے بال کے

بوس و کنار و وصل حسیناں ہے خوب شغل
کمتر بزرگ ہوں گے خلاف اس خیال کے

قامت سے تیرے صانع قدرت نے اے حسیں
دکھلا دیا ہے حشر کو سانچے میں ڈھال کے

شان دماغ عشق کے جلوے سے یہ بڑھی
رکھتا ہے ہوش بھی قدم اپنے سنبھال کے

زینت مقدمہ ہے مصیبت کا دہر میں
سب شمع کو جلاتے ہیں سانچے میں ڈھال کے

ہستی کے حق کے سامنے کیا اصل این و آں
پتلے یہ سب ہیں آپ کے وہم و خیال کے

تلوار لے کے اٹھتا ہے ہر طالب فروغ
دور فلک میں ہیں یہ اشارے ہلال کے

پیچیدہ زندگی کے کرو تم مقدمے
دکھلا ہی دے گی موت نتیجہ نکال کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse