حوصلہ امتحان سے نکلا
حوصلہ امتحان سے نکلا
جان کا کام جان سے نکلا
درد دل ان کے کان تک پہنچا
بات بن کر زبان سے نکلا
بے وفائی میں وہ زمیں والا
ہاتھ بھر آسمان سے نکلا
حرف مطلب فقط کہا نہ گیا
ورنہ سب کچھ زبان سے نکلا
کچھ کی کچھ کون سننے والا تھا
کچھ کا کچھ کیوں زبان سے نکلا
اک ستم مٹ گیا تو اور ہوا
آسماں آسمان سے نکلا
جس سے بچتا تھا میں دم اظہار
وہی پہلو بیان سے نکلا
وہ بھی ارمان کیا جو اے مضطرؔ
دل میں رہ کر زبان سے نکلا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |