حیدر کا جگر پارہ وہ فاطمہ کا پیارا
حیدر کا جگر پارہ وہ فاطمہ کا پیارا
نکلا تھا مدینے سے ناموس لیے سارا
اس چرخ سیہ رو نے اک فتنے کو سنکارا
اس ظلم رسیدہ کو کن سختیوں سے مارا
کرتا تھا وہ آنکھوں سے خون جگر افشانی
دریا کے کنارے پر پایا نہ تنک پانی
اس قوم کو تھی اس سے اک دشمنی جانی
اس مرتبہ بے برگی اس درجہ نواخوانی
وہ یوسف ثانی تھا جیسے کہ ہو زندانی
مہمان عزیز ایسا تس کی ہو یہ مہمانی
کھانے کو جراحت تھے پینے کے تئیں خوں تھا
سب ساتھ کے لوگوں کا احوال دگرگوں تھا
سب چل بسے ہمراہی اس وادی ویراں میں
کوئی نہ رہا اس کے انصار میں اعواں میں
نونیزہ چڑھا پانی اس ظلم نمایاں میں
پر پانی نہ دیکھا تھا جز دیدۂ گریاں میں
آخر کو سفر اپنا ناچار ہو ٹھہرایا
کیا کیا نہ خیال اس کو پھر جاتے ہوئے آیا
ناموس کے بے جاگہ اس آن اترنے کا
ہمراہیوں کے جی سے ناچار گذرنے کا
گھر بار کے جلنے کا فرزندوں کے مرنے کا
انصاف ستم ہرگز یاروں کے نہ کرنے کا
سو دادگری کی واں سب رسم اٹھا دی تھی
آزار رسانی کی تاکید و منادی تھی
اس ہمسر بے وارث اندوہ کی ماری کا
اس دختر بے مشفق نادان بچاری کا
اس جمع پریشاں کی اوقات گذاری کا
اس خانہ خرابی کا بیٹے کی نزاری کا
مرنے کو نہ تھا جی پر ناچار موا آخر
سر جس لیے دھنتا تھا پھر سو ہی ہوا آخر
خیموں کو جلاتے تھے آشوب اٹھاتے تھے
شمشیریں علم کرتے بے وسوسہ آتے تھے
لے جاتے تھے واں سے جو تنکے کو بھی پاتے تھے
جاروب کر اس گھر کو سب خاک اڑاتے تھے
احمدؐ کا نہ پاس ان کو حیدر کا نہ اندیشہ
تھا جور و ستم شیوہ بیدادگری پیشہ
جب وہ شہ بے لشکر میداں میں گیا مارا
گھربار جلا یکسر ناموس لٹا سارا
سر آپڑی عابد کے سو بیکس و بیچارہ
بے طاقت و بے ہمدم بے یاور و بے یارا
حیران سلوک ان کا کرتا تھا نظر سب پر
سو آنسو پلک پر تھے سو نالۂ دل لب پر
تھے خیمہ نشیں جتنے بے پردہ سو ہو بیٹھے
پھر سر کی ردائیں بھی اس دشت میں کھو بیٹھے
برباد گئی عزت ناموس کو رو بیٹھے
اس درد کو وہ پہنچے اس طرح سے جو بیٹھے
وارث کے موئے کوئی کرتا نہیں بیدادی
اس ظلم کے ہوں جاکر کس کے کنے فریادی
اس راہ کے چلنے کی کیا اچھی علامت تھی
آنے کی مدینے سے ہر اک کو ندامت تھی
ہر حرف تھا اک طعنہ ہر بات ملامت تھی
فریاد سکینہ سے ہر گام قیامت تھی
جب رونے وہ لگتی تھی کلثوم موئی جاتی
زینب گلے سے لگ کر کچھ غش ہی ہوئی جاتی
کوئی نہ رہا جس کو ہو کچھ غم دلداری
غیروں سے دل آزاری اپنوں سے یہ کچھ خواری
عابد کی وہ بیماری وہ بیکسی بے یاری
ہو شہ کے اٹھانے کی کس طرح سے تیاری
اسباب نہیں مطلق وارث نہیں ہے کوئی
یاں بات نہیں سنتے یک سو رہی دلجوئی
فرصت نہیں ہے اتنی جو دم بھی لیا جاوے
تاکید میں چلنے کی کیا فکر کیا جاوے
کیونکرکے نہ عابد پھر پانی سا ہوا جاوے
پیاسا ہو قبیلہ سب یوں جس کا لٹا جاوے
کیا کیا نہ پدر مردہ بے طاقتی کرتا ہے
ہر آن میں گرتا ہے ہر گام پہ مرتا ہے
انواع ستم ہیں گے بے تاب و تواں اوپر
اقسام جفا ہیں گے دل خستہ جواں اوپر
کچھ طعن نہیں تنہا ہر اک کی زباں اوپر
سر باپ کا بھی آگے جاتا تھا سناں اوپر
اس سخت مصیبت پر کس دل کو شکیب آوے
پتھر کا جگر ہو تو یاں آب ہو بہہ جاوے
قسمت میں تھا قاسم کے افسوس جواں مرنا
دولھن کے تئیں اس کے سب عمر تھا دکھ بھرنا
اکبر کے نہ طالع تھے جو گور میں ہو دھرنا
کانوں نہ سنا ہرگز اصغر کا سخن کرنا
ارمان جو دل میں تھے دل ہی میں رہے سارے
کیا وقت برا آیا بے وقت گئے مارے
ناگہ نظر زینب میداں کی طرف آئی
اک لاش میں بھائی کے پیکر کی طرح پائی
بے تاب ہوئی ازبس آخر گری چلائی
رو رو کے لگی کہنے کچھ وجہ بھی اے بھائی
منھ ٹک جو ترا ایدھر ہوتا نہیں ہے ہرگز
مردے پہ ترے کوئی روتا نہیں ہے ہرگز
کیا تجھ پہ ہوا ثابت جو لوٹ لیا سب گھر
کیا تونے کیا جس سے دشمن ہے یہ سب لشکر
کیا جرم ہوا سرزد جو سر نہیں ہے تن پر
جو پردگی ہے کیوں ہے بے پردہ و بے چادر
کچھ بول سبب کیا تھا کیوں تیرے تئیں مارا
ناموس بیاباں میں کاہے کو ہے آوارہ
وہ خانۂ دولت ہے اب غیرت ویرانہ
برباد گیا سارا اسباب امیرانہ
ہیں پردہ نشیں اکثر رستے میں فقیرانہ
چلنا ہمیں آیا ہے درپیش اسیرانہ
مردے کو ترے ہم جو چھوڑے ہوئے جاتے ہیں
افراط خجالت سے ہر دم موئے جاتے ہیں
اس پیکر مردہ سے کر دل کے تئیں خالی
ناچار گئی آگے بے وارث و بے والی
پھر حد سے ہوئی افزوں بیچارگی بدحالی
تونے بھی قلم اپنے یاں ہاتھ سے گر ڈالی
تو میرؔ کیا اچھا لکھنے کا نہ تھا شایاں
ننوشتہ ہی بہتر ہے ایسا غم بے پایاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |