حیدر کا جگر پارہ وہ فاطمہ کا پیارا

حیدر کا جگر پارہ وہ فاطمہ کا پیارا
by میر تقی میر
313528حیدر کا جگر پارہ وہ فاطمہ کا پیارامیر تقی میر

حیدر کا جگر پارہ وہ فاطمہ کا پیارا
نکلا تھا مدینے سے ناموس لیے سارا
اس چرخ سیہ رو نے اک فتنے کو سنکارا
اس ظلم رسیدہ کو کن سختیوں سے مارا
کرتا تھا وہ آنکھوں سے خون جگر افشانی
دریا کے کنارے پر پایا نہ تنک پانی

اس قوم کو تھی اس سے اک دشمنی جانی
اس مرتبہ بے برگی اس درجہ نواخوانی
وہ یوسف ثانی تھا جیسے کہ ہو زندانی
مہمان عزیز ایسا تس کی ہو یہ مہمانی
کھانے کو جراحت تھے پینے کے تئیں خوں تھا
سب ساتھ کے لوگوں کا احوال دگرگوں تھا

سب چل بسے ہمراہی اس وادی ویراں میں
کوئی نہ رہا اس کے انصار میں اعواں میں
نونیزہ چڑھا پانی اس ظلم نمایاں میں
پر پانی نہ دیکھا تھا جز دیدۂ گریاں میں
آخر کو سفر اپنا ناچار ہو ٹھہرایا
کیا کیا نہ خیال اس کو پھر جاتے ہوئے آیا

ناموس کے بے جاگہ اس آن اترنے کا
ہمراہیوں کے جی سے ناچار گذرنے کا
گھر بار کے جلنے کا فرزندوں کے مرنے کا
انصاف ستم ہرگز یاروں کے نہ کرنے کا
سو دادگری کی واں سب رسم اٹھا دی تھی
آزار رسانی کی تاکید و منادی تھی

اس ہمسر بے وارث اندوہ کی ماری کا
اس دختر بے مشفق نادان بچاری کا
اس جمع پریشاں کی اوقات گذاری کا
اس خانہ خرابی کا بیٹے کی نزاری کا
مرنے کو نہ تھا جی پر ناچار موا آخر
سر جس لیے دھنتا تھا پھر سو ہی ہوا آخر

خیموں کو جلاتے تھے آشوب اٹھاتے تھے
شمشیریں علم کرتے بے وسوسہ آتے تھے
لے جاتے تھے واں سے جو تنکے کو بھی پاتے تھے
جاروب کر اس گھر کو سب خاک اڑاتے تھے
احمدؐ کا نہ پاس ان کو حیدر کا نہ اندیشہ
تھا جور و ستم شیوہ بیدادگری پیشہ

جب وہ شہ بے لشکر میداں میں گیا مارا
گھربار جلا یکسر ناموس لٹا سارا
سر آپڑی عابد کے سو بیکس و بیچارہ
بے طاقت و بے ہمدم بے یاور و بے یارا
حیران سلوک ان کا کرتا تھا نظر سب پر
سو آنسو پلک پر تھے سو نالۂ دل لب پر

تھے خیمہ نشیں جتنے بے پردہ سو ہو بیٹھے
پھر سر کی ردائیں بھی اس دشت میں کھو بیٹھے
برباد گئی عزت ناموس کو رو بیٹھے
اس درد کو وہ پہنچے اس طرح سے جو بیٹھے
وارث کے موئے کوئی کرتا نہیں بیدادی
اس ظلم کے ہوں جاکر کس کے کنے فریادی

اس راہ کے چلنے کی کیا اچھی علامت تھی
آنے کی مدینے سے ہر اک کو ندامت تھی
ہر حرف تھا اک طعنہ ہر بات ملامت تھی
فریاد سکینہ سے ہر گام قیامت تھی
جب رونے وہ لگتی تھی کلثوم موئی جاتی
زینب گلے سے لگ کر کچھ غش ہی ہوئی جاتی

کوئی نہ رہا جس کو ہو کچھ غم دلداری
غیروں سے دل آزاری اپنوں سے یہ کچھ خواری
عابد کی وہ بیماری وہ بیکسی بے یاری
ہو شہ کے اٹھانے کی کس طرح سے تیاری
اسباب نہیں مطلق وارث نہیں ہے کوئی
یاں بات نہیں سنتے یک سو رہی دلجوئی

فرصت نہیں ہے اتنی جو دم بھی لیا جاوے
تاکید میں چلنے کی کیا فکر کیا جاوے
کیونکرکے نہ عابد پھر پانی سا ہوا جاوے
پیاسا ہو قبیلہ سب یوں جس کا لٹا جاوے
کیا کیا نہ پدر مردہ بے طاقتی کرتا ہے
ہر آن میں گرتا ہے ہر گام پہ مرتا ہے

انواع ستم ہیں گے بے تاب و تواں اوپر
اقسام جفا ہیں گے دل خستہ جواں اوپر
کچھ طعن نہیں تنہا ہر اک کی زباں اوپر
سر باپ کا بھی آگے جاتا تھا سناں اوپر
اس سخت مصیبت پر کس دل کو شکیب آوے
پتھر کا جگر ہو تو یاں آب ہو بہہ جاوے

قسمت میں تھا قاسم کے افسوس جواں مرنا
دولھن کے تئیں اس کے سب عمر تھا دکھ بھرنا
اکبر کے نہ طالع تھے جو گور میں ہو دھرنا
کانوں نہ سنا ہرگز اصغر کا سخن کرنا
ارمان جو دل میں تھے دل ہی میں رہے سارے
کیا وقت برا آیا بے وقت گئے مارے

ناگہ نظر زینب میداں کی طرف آئی
اک لاش میں بھائی کے پیکر کی طرح پائی
بے تاب ہوئی ازبس آخر گری چلائی
رو رو کے لگی کہنے کچھ وجہ بھی اے بھائی
منھ ٹک جو ترا ایدھر ہوتا نہیں ہے ہرگز
مردے پہ ترے کوئی روتا نہیں ہے ہرگز

کیا تجھ پہ ہوا ثابت جو لوٹ لیا سب گھر
کیا تونے کیا جس سے دشمن ہے یہ سب لشکر
کیا جرم ہوا سرزد جو سر نہیں ہے تن پر
جو پردگی ہے کیوں ہے بے پردہ و بے چادر
کچھ بول سبب کیا تھا کیوں تیرے تئیں مارا
ناموس بیاباں میں کاہے کو ہے آوارہ

وہ خانۂ دولت ہے اب غیرت ویرانہ
برباد گیا سارا اسباب امیرانہ
ہیں پردہ نشیں اکثر رستے میں فقیرانہ
چلنا ہمیں آیا ہے درپیش اسیرانہ
مردے کو ترے ہم جو چھوڑے ہوئے جاتے ہیں
افراط خجالت سے ہر دم موئے جاتے ہیں

اس پیکر مردہ سے کر دل کے تئیں خالی
ناچار گئی آگے بے وارث و بے والی
پھر حد سے ہوئی افزوں بیچارگی بدحالی
تونے بھی قلم اپنے یاں ہاتھ سے گر ڈالی
تو میرؔ کیا اچھا لکھنے کا نہ تھا شایاں
ننوشتہ ہی بہتر ہے ایسا غم بے پایاں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.