خاک تیرے فرق پر اے بے مروت آسماں

خاک تیرے فرق پر اے بے مروت آسماں
by میر تقی میر
313539خاک تیرے فرق پر اے بے مروت آسماںمیر تقی میر

خاک تیرے فرق پر اے بے مروت آسماں
ایک قطرہ آب کو ابن علی دیتا ہے جاں
بھائی بیٹے اس کے مارے جاتے ہیں کیا کیا جواں
کھول چشم مہر و مہ پھر وقت ملتا ہے کہاں

آنکھیں ہیں طالع ستارے پر نہیں تجھ کو نظر
ہاتھ دھلوا ایسے مہماں کے سعادت جان کر
ہو سکے تو صرف کر مقدور اس کا پانی بھر
آگیا ہے ساقی کوثر کا نورچشم یاں

جان سے جب ہاتھ دھو بیٹھے گا یہ تب کیا حصول
فائدہ جو تشنہ لب دریا کنارے ہو ملول
اب بھی ہے وقت مروت شاد کر روح رسولؐ
ورنہ اس خورشید کے ڈوبے سیہ ہوگا جہاں

گھر سیاہ اپنے کریں گے اس عزا میں سب امیر
اس کے ماتم میں بہت سے لوگ ہوویں گے فقیر
سینہ کوبی کرتے کوچوں میں پھریں گے خرد و پیر
عورتیں بے تاب نکلیں گی گھروں سے موفشاں

گریہ و زاری پہ رکھیں گے خردمنداں اساس
جامۂ آبی مقرر ہوگا ہر اک کا لباس
ناخنوں سے لوگوں کے چہرے نچیں گے بے قیاس
پتھروں سے سر کو دے دے ماریں گے خرد و کلاں

جمع نسواں موپریشاں سینہ کوباں دل کباب
اپنے کاکل کی طرح غصے سے سب پرپیچ و تاب
یک دل و غم بے حد و یک جان و رنجش بے حساب
ایک لب سو شوروشیں نوحے ہزاروں یک زباں

نعل سینوں پر جڑیں گے اور سر پھوڑیں گے لوگ
کھینچیں گے کتنے الف داغ اور کتنے لیں گے جوگ
دیر اس ماتم سرا میں رکھیں گے اس شہ کا سوگ
حلقہ حلقہ لوگ ہوں گے نوحہ ہوگا درمیاں

سود اپنا دیکھ کر اقدام کر خدمت کے بیچ
نیک نامی سے ہو تا مشہور تو خلقت کے بیچ
ہو شریک رنج اس کا یعنی اس محنت کے بیچ
ورنہ کیا ہے نفع کھینچے گا جو یہ جی کا زیاں

کر مروت رنج و غم سے اس مسافر کو نکال
حاصل اس دم کیا ہے جس دم قطع ہو جاویں نہال
گل جھڑیں بوٹے کٹیں غنچے ہوں یکسر پائمال
خاک سی اس باغ کی دیوے اڑا باد خزاں

یعنی اس کے اقربا خویش و پسر مر جائیں گے
تنگ ہو ناچار سر میدان میں کٹوائیں گے
ناتواں سجاد ہی کو سب کی جاگہ پائیں گے
سو گلے میں اس کے طوق آہنیں ہوگا گراں

یار و انصار اس کے مارے جائیں گے یک بارگی
ہوگی اس جمع معزز میں عجب آوارگی
اترے گا گھوڑے سے وہ زخمی بصد بے چارگی
ہوگا سر نیزے پہ جوں خورشید حشر اس کا عیاں

قافلہ لوٹا ہوا ناچار ہوگا گرم راہ
ڈبڈبائیں سب کی آنکھیں زیر لب فریاد و آہ
دل شکستہ دست بستہ جان کی حالت تباہ
آگے آگے عابدیں بے یاور و بے مہرباں

موند کر آنکھیں جو یہ سید گیا جی سے گذر
تو فسانہ یہ رہا جب تک کہ ہے نوع بشر
عاقبت سے کچھ نہیں اس کام کی تجھ کو خبر
تا قیامت چشم پوشی تیری ہووے گی بیاں

ماتمی سارے کہیں گے اے فلک یہ کیا کیا
کنبہ اس کا مار کر سارا اسے تنہا کیا
پھر یہ ہنگامہ سر بیکس پہ کیا برپا کیا
جس سے وہ جی دے گیا ہے غم کدہ یہ خاکداں

الغرض شاکی رہیں گے تعزیہ دار امام
مرثیہ میں میرؔ کے تیرے گلے ہوں گے تمام
کرتے شیون منھ تری جانب کریں گے خاص و عام
دیکھیں گے تیری طرف سر پیٹتے پیر و جواں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.