خدا نما ہے بت سنگ آستانۂ عشق

خدا نما ہے بت سنگ آستانۂ عشق
by خواجہ محمد وزیر
316474خدا نما ہے بت سنگ آستانۂ عشقخواجہ محمد وزیر

خدا نما ہے بت سنگ آستانۂ عشق
چلوں گا پائے نگہ بن کے سوئے خانۂ عشق

نہ کم ہوں سکۂ داغ دل یگانۂ عشق
بھرا پڑا رہے یا رب سدا خزانۂ عشق

جبین قیس بنی سنگ آستانۂ عشق
جنوں ہے خیمۂ لیلےٰ سیاہ خانۂ عشق

مدام دل میں رہے داغ الفت ساقی
نہ بے چراغ ہو یا رب شراب خانۂ عشق

یہ محفل طرب حسن ہے نہیں مقتل
صدا گلوئے بریدہ کی ہے ترانۂ عشق

یہ کہہ کے پھرتی ہے دن رات آسیائے فلک
ملے تو خرمن مہ دے کے لوں میں دانۂ عشق

ہے آفتاب پیالہ فرشتہ خو ساقی
خم فلک ہے سبوئے شراب خانۂ عشق

بس ایک ہاتھ میں دو ہو کے میں زمیں پہ گرا
قضا جو آئی ادا ہو گیا دوگانۂ عشق

ہر ایک گام پہ دل پیستا ہے ابلق چشم
مگر ہے سرمے کا دنبالہ تازیانۂ عشق

جلایا طور کو اک دم میں صاعقہ بن کر
شرر فشاں جو ہوا سنگ آستانۂ عشق

ہو خانۂ صدف دل نہ کس طرح پر نور
کہ آپ ہے گہر شب چراغ دانۂ عشق

بتو خدا نے کہا فی السماء رزقکم آپ
ملا ہے مجھ کو یہ ہفت آسیا سے دانۂ عشق

یہ سچ مثل ہے بتو سب کا ہے خدا رزاق
نصیب طائر دل ہے ازل سے دانۂ عشق

جو خال بن کے خط رخ میں دل رہے میرا
کہوں میں خرمن مہ میں ملا یہ دانۂ عشق

کسی کے ابروئے پر خم کا دھیان رہتا ہے
ہمارا کعبۂ دل ہے سیاہ خانۂ عشق

صداے ماتم دل سن کے خوش وہ ہوتے ہیں
نوائے سینہ زنی ہے کہ شادیانۂ عشق

جو شوق دید ہے موسیٰ کی طرح ایک نہ سن
کہ لنترانیٔ محبوب ہے ترانۂ عشق

نقاب ادھر وہ اٹھائیں ادھر میں آہ کروں
سمند حسن پہ پڑ جائے تازیانۂ عشق

جو تولیے اسے کونین کی ترازو میں
گراں ہو وزن میں نہ آسیا سے دانۂ عشق

فروغ بزم تصور ہے یاد پستاں کی
حباب حسن بنے ہیں چراغ خانۂ عشق

خیال گوہر دنداں میں ہم جو روتے ہیں
سرشک دیدۂ تر ہے در یگانۂ عشق

ہے میرے دل کی طرح اس سے یہ پریشاں حال
ملا ہے زلف کو حسن سیاہ خانۂ عشق

چڑھا جو دار پہ عاشق کا سر ہوا سردار
جدا ہے خانۂ عالم سے کارخانۂ عشق

خدا کا گھر ہو جو ٹوٹے جہاد نفس سے دل
خراب ہو تو بنے لا مکاں یہ خانۂ عشق

وہ دل لگا کے سنیں داستان کی صورت
بیان کیجیے اس حسن سے فسانۂ عشق

وزیرؔ تخم محبت کو دل میں بو اپنے
زمیں وہ شور ہے جس میں اگے نہ دانۂ عشق


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.