خدا پرست ہوئے ہم نہ بت پرست ہوئے

خدا پرست ہوئے ہم نہ بت پرست ہوئے
by امداد علی بحر

خدا پرست ہوئے ہم نہ بت پرست ہوئے
کسی طرف نہ جھکا سر کچھ ایسے مست ہوئے

جنہیں غرور بہت تھا نماز روزے پر
گئے جو قبر میں سارے وضو شکست ہوئے

ہمارے دل میں جو وحشت نے آگ بھڑکائی
شرر بھی رہ گئے پیچھے یہ گرم جست ہوئے

جو اپنے وعدے وفا وہ کرے کرم اس کا
کہ ہم سے تو نہ وفا وعدۂ الست ہوئے

غرور کر کے نگاہوں سے گر گئے مغرور
بلند جتنے ہوئے اتنے اور پست ہوئے

رہا خمار کہ صدمے سے چور شیشۂ دل
مگر نہ سائل مے تیرے مے پرست ہوئے

لگائے خار لگیں ٹٹیاں بھی مہندی کی
رکے نہ بوئے چمن لاکھ بند و بست ہوئے

خزاں میں بھی نہ چھٹا دامن چمن ہم سے
ہوئے جو سوکھ کے کانٹا تو خار بست ہوئے

بنا ہے پنجۂ قصاب دست ظلم ان کا
سب انگلیاں ہوئیں چھریاں یہ تیز دست ہوئے

حباب سے بھی حبیبوں کے دل میں نازک تر
نظر کے بھی جو لگے ٹھیس یہ شکست ہوئے

تڑپ دکھا نہ اسے بحرؔ ماہی دل کی
غضب ہوا جو وہ تار نگاہ شست ہوئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse