خدا کی قسم پھر تو کیا خیر ہووے
خدا کی قسم پھر تو کیا خیر ہووے
ہم اور تم اکیلے ہوں اور سیر ہووے
کریں غیر کا شکوہ کس طور پھر ہم
نہ اپنے سوا جب کوئی غیر ہووے
زیارت کریں دل میں کعبے کی اپنے
جو مجھ سا کوئی ساکن دیر ہووے
ملے ایسے زردار سے کس کی جوتی
نہ تیار جس سے ترا پیر ہووے
اگر خامشی کو میں گویائی لکھوں
تو دیواں مرا منطق الطیر ہووے
ہوا خصم جاں مصحفیؔ وہ تو تیرا
نہ انساں کو انسان سے بیر ہووے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |