خریدار اپنا ہم کو جانتے ہو
خریدار اپنا ہم کو جانتے ہو
بھلا اتنا تو تم پہچانتے ہو
بنے گا چہرہ یہ کس کا مہ و مہر
جو تم بیٹھے صباحت چھانتے ہو
اٹھو اے زخمیان کوچۂ یار
عبث کیوں خوں میں ماٹی سانتے ہو
وہ آنے کا نہیں اب گھر سے باہر
تم اس قاتل کو کم پہچانتے ہو
یکا یک کر گزرتے ہو وہی جان
تم اپنے جی میں جو کچھ ٹھانتے ہو
غرض ہو آشنا اپنی ہی ضد کے
کسی کی بات کو کب مانتے ہو
گیا ہے قافلہ میاں مصحفیؔ اب
عبث دامن کو تم گردانتے ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |